Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۰(کتاب الغصب، کتاب الشفعہ، کتاب القسمہ، کتاب المزارعہ، کتاب الصید و الذبائح، کتاب الاضحیہ)
2 - 126
مسئلہ ۲: مسئولہ مولوی سیدمحمد جان صاحب    ۱۵ ربیع الاول شریف ۱۳۰۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بکر پر اس کی زوجہ کا دین مہر بمقدار( بیس ہزارروپیہ عہ) کے لازم ہے۔ بکر نے ایک مکان خریدا، بعد خریداری کے وہ مکان اپنی زوجہ کے ہاتھ بعوض اس کے دین مہر کے بیع کرد یا بعوض دین مہرکے بعوض کیا، تو اس صورت میں خالد کہ مکان مذکور کا شفیع ہے اس کا شفعہ پہنچتاہے یانہیں اوراگر زوجہ کو بلاعوض ہبہ مجرد کردے تو شفعہ ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب : اگر بعوض مہر بیع کی یا ہبہ بالعوض کیا، یعنی یوں کہا یہ مکان میں نے بعوض تیرے مہر کے تجھے دیا، اور زوجہ نے قبول کیا تو شفعہ لازم ہے۔ اگر چہ مکان قبضہ زوجہ میں نہ آیا ہو۔
لان الشفعۃ تعتمد زوال الملک عن المالک والملک فی البیع الصحیح یزول بمجرد العقد من دون توقف علی القبض والھبۃ بعوض بیع ابتداء وانتہاء، کما فی الہدایۃ ۱؎ والدرالمختار۲؎ وغیرھما من الاسفار ۔
کیونکہ شفعہ کا مدار مالک سے ملکیت کے زوال پر ہے جبکہ صحیح بیع میں عقد بیع سے ہی ملکیت زائل ہوجاتی ہے۔ مشتری کے قبضہ پر موقوف نہیں ہوتی، اور ہبہ بالعوض ابتداءً اور انتہاءً بیع ہےجیسا کہ ہدایہ اوردرمختار وغیرہما کتب میں ہے۔ (ت)
 (۱؎ الہدایۃ     کتاب الہبہ باب مایصح رجوعہ ومالایصح    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۸۹۔ ۲۸۸) 

(۲؎ درمختار    کتاب الھبۃ باب الرجوع فی الھبۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۶۴)
اور اگر ہبہ بشرط العوض کیا یعنی یوں کہا کہ یہ مکان میں نے تجھے ہبہ کیا بشرطیکہ تو مجھے مہر ہبہ کردے، اور زوجہ نے مہر بخش دی، تو شفعہ ثابت نہ ہوگا، جب تک مکان قبضہ زوجہ میں نہ آجائے، جب باذن شوہر زوجہ قبضہ کاملہ کرے گی، اس وقت شفیع کا شفعہ ثابت ہوگا۔
لانہا ھبۃ ابتداء فلا یزول الملک الا بالقبض، فاذا وجد القبض عادت بیعا، فتثبت الشفعۃ۔
کیونکہ یہ ابتداء ہبہ ہے لہذا ہبہ میں قبضہ کے بغیر واہب کی ملکیت زائل نہ ہوگی، تو جب قبضہ پایا جائے گا تو ہبہ بیع بن جائے گا تو شفعہ ثابت ہوجائے گا۔ (ت)
اور اگر ہبہ مجرد کیا تو اصلا شفعہ نہیں،
فی الہدایۃ لا شفعۃ فی ھبۃ الا ان تکون بعوض مشروط لانہ بیع انتہاءً ولا بد من القبض وان لا یکون الموھوب ولا عوضہ شائعا لانہ ھبۃ ابتداءً ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ہدایہ میں ہے ہبہ میں شفعہ نہیں ہوتا مگر جب وہ عوض کے ساتھ مشروط ہوکیونکہ ایسی صورت میں وہ انتہاء بیع قرا ر پاتاہے تو قبضہ ضروری ہے۔ اور موہوب اور اس کاعوض شائع نہ ہو کیونکہ یہ ابتداء ہبہ ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۳؎ الہدایہ    کتاب الشفعۃ     باب ماتجب فیہ الشفعۃ    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴ /۴۰۲)
مسئلہ ۳: مسئولہ مولوی سید محمد جان صاحب     ۲۳ ربیع الثانی شریف ۱۳۰۶

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ا س مسئلہ میں کہ زید نے ایک قطعہ اراضی خریدا، اور واسطے ثبوت اپنے قبضہ کے ایک شاخ درخت واقع اراضی مشریہ کو قطع شروع کیا ، اس وقت بکر کو اطلاع بیع لینے اراضی کی ہوئی، بکر اسی وقت موقع پر زید کے پاس گیا اورکہا میں اس اراضی کا شفیع ہوں مجھ کو دے دو، زید نے کہا تمھارا شفعہ دو وجہ سے جائز نہیں، ایک نظیرا، دوسرے میں خود شفیع ہوں۔ پھر کچھ گفتگو نہ ہوئی، بعد ایک مہینہ بارہ روز کے بکر نے زید سے کہا کہ روپیہ لے لو، جس قیمت کویہ اراضی خریدی ہے اور اراضی مجھ کو دے دو، زید نے روپیہ نہ لیا اور کہاکہ حق مواثبت جاتارہا اوربعد چند عرصہ کے زید نے وہ اراضی بذریعہ ہبہ مطلق منتقل کردی اور دستاویز مصدق پررجسٹری کردی، وقت اطلاع ہبہ شفیع مدعی ہوا کہ مجھ کو اطلاع ہبہ کی نہ تھی، اب جو مجھے اطلاع ہوئی تو میں اس انتقال کا بھی شفیع ہوں، ان صورتوں میں شفعہ بکر جائز ہے یانہیں؟ اور یہ انتقال ہبہ قبل تصفیہ باہمی زید وبکر کے درست ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

شفیع اگر بفور استماع خبر طلب شفعہ کرکے مشتری یا مکان کے پاس جاکر طلب تقریر کرے، اور اگر مبیع ہنوز قبضہ بائع میں ہو تو اس کے پاس طلب بھی کافی ہے۔ اور اس طلب دوم میں بھی بشرط قدرت دیر نہ لگائی تو ان امور سے اس کا شفعہ مستقر ہوجاتاہے کہ بے صدور مبطل باطل نہ ہوگا۔
درمختارمیں ہے :
یطلبہا لشفیع طلب المواثبۃ ثم یشہد علی البائع لوالعقار فی یدہ اوعلی المشتری وان لم یکن ذاید اوعندالعقار، وھذا لابد منہ، حتی لو تمکن ولو بکتاب اورسول، ولم یشہد بطلت شفعتہ، وان لم یتمکن منہ لا تبطل ۱؎ اھ ملخصا۔
شفیع استقرار حق طلب کرکے پھر بائع کے پاس گواہ بنائے اگر پراپرٹی اس کے قبضہ میں ہو یا مشتری کے ہاں گواہ بنائے اگرچہ زمین اس کے قبضہ میں نہ ہو، یا فروخت شدہ زمین پر ایسا کرے۔ اوریہ ضروری ہے حتی کہ اگر اس کویہ بذریعہ خط یا بذریعہ قاصد بھی ممکن ہو اور وہ ایسا نہ کر ے تو اس کا شفعہ باطل ہوجائے گا اور اگر اس کویہ قدرت نہ ہوئی تو باطل نہ ہوگا اھ ملخصا۔ (ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ    مطبع مجتبائی دہلی  ۲ /۲۱۲)
ہدایہ میں ہے:
الحق متی ثبت واستقر لایسقط الاباسقاطہ ۱؎ الخ۔
اور حق جب ثابت ہوجائے اور استقرار ہوجائےتو خود ساقط کئے بغیر ساقط نہ ہوگا ۔ (ت)
(۱؎ الہدایہ  کتاب الشفعۃ   باب طلب الشفعۃ    مطبع یوسفی لکھنؤ        ۴ /۳۹۲)
ردالمحتارمیں ہے :
تستقربالا شہاد ای بالطلب الثانی، وھو طلب التقریر، والمعنی اذا اشہد علیہا لاتبطل بعد ذٰلک بالسکوت الا ان یسقطہا بلسانہ اویعجز عن ایفاء الثمن فیبطل القاضی شفعتہ ۲؎ الخ۔
شفعہ کاگواہ بنانے یعنی دوسری طلب پر استقرار ہوجاتاہے یہ دوسری طلب برائے پختگی ہے اور معنی یہ ہواکہ جب شفعہ پر گواہ بنالیے تو اس کے بعد سکوت سے باطل نہ ہوگا ہاں اگر خود اپنی زبان سے ساقط کرے یا ثمن کی ادائیگی سے عاجز رہےتو قاضی اس کے شفعہ کو باطل قرار دے گا۔ الخ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار   کتاب الشفعۃ   باب طلب الشفعۃ داراحیاء الترا ث العربی بیروت    ۵ /۱۳۹)
پس اگر تمام مدارج طلب ابتدائی وطلب ثانی کے بجالا یا تو بیشک اس کا حق مؤکد ہوگیا، اور مشتری کا خود شفیع ہونا اس کے حق کا مانع نہیں، غایب یہ ہے کہ اگر دونوں مساوی درجہ کے شفیع ہے اور مشتری مزاحمت کرے تو مبیع دونوں میں نصف نصف ہوجائے ۔
فی الدرالمختار لو کان المشتری شریکا وللدار شریک اٰخر فلہما الشفعۃ ۳؎۔
   درمختارمیں ہے کہ اگر مشتری شریک ہو اورمبیع مکان میں کوئی اور شریک بھی ہو تو دونوں شریکوں کو شفعہ کا حق ہوگا۔ (ت)
 (۳؎ درمختار    کتاب الشفعۃ  باب ماتثبت ھی فیہ اولا    مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۲۱۵)
اور روپیہ بطور طلب شفعہ پیش کرنا کہ میں شفیع ہوں اپنا روپیہ لے۔ اور شیئ مشفوع مجھے دے کچھ مضر نہیں۔
لانہ لایدل علی الرغبۃ عنہا بل فیہافی الدرالمختار الاصل ان الشفعۃ تبطل باظہار الرغبۃ عنہا لافیہا۔ ۴؎۔
کیونکہ یہ اس سے اعراض پر دال نہیں ہے بلکہ اس میں دلچسپی کا اظہار ہے درمختار میں ہے قائدہ یہ ہے کہ اعراض کرنے سے شفعہ ساقط ہوتاہے اس دلچسپی سے ساقط نہیں ہوتا۔ (ت)
 (۴؎ درمختار   کتاب الشفعۃ     باب ما تثبت  ھی فیہ اولا    مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۲۱۵)
ہاں یوں روپیہ پیش کرنا کہ قیمت لے اور مکان میرے ہات بیچ ڈال، البتہ مسقط شفعہ ہے۔
فی الدرالمختار یبطلہا ان طلب منہ ان یولیہ عقد الشراء ۵؎۔
درمختارمیں ہے کہ شفیع اگر یہ مطالبہ کرے کہ مجھ سے شراء کرتو اس مطالبہ سے شفعہ کا باطل ہوجائے گا۔ (ت)
(۵؎درمختار   کتاب الشفعۃ    باب مایبطلہا   مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۲۱۵)
اورہبہ مجردہیں اگرچہ شفعہ نہیں، مگر مشتری بوجہ ہبہ خواہ کسی طریقہ اتنقال کے حق شفیع کو ساقط نہیں کرسکتا کہ اس کا دعوٰی شفعہ بربنائے بیع ہے۔ جو مالک اول نے اس مشتری کے ہاتھ کی، نہ بربنائے اس ہبہ کے جو یہ مشتری دوسرے کے لئے کرتاہے، ایسی حالت میں شفیع کو اختیار ہوتاہے کہ مشتری کے تمام تصرفا ت کو ردکردے اور مبیع بذریعہ شفعہ لے لے۔
فی الدرالمختار ینقض الشفیع جمیع تصرفاتہ ای المشتری حتی الوقف والمسجد والمقبرۃ والھبۃ زیلعی وزاھدی ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ شفعہ حاصل کرلینے کے بعد شفیع مشتری کے تمام تصرفات ختم کردے گا حتی کہ وقف، مسجد، مقبرہ اورہبہ تک کو توڑ دے گا، زیلعی وزاہدی (ت) (جواب نامکمل ملا)
(۱؎ درمختار   کتاب الشفعۃ باب طلب الشفعۃ    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۳۱۲)
Flag Counter